Little Known Facts About دعا تک دین کو بدلتی ہے.

یا اللہ! تمام معاملات کا انجام ہمارے لیے بہتر فرما، اور ہمیں دنیاوی رسوائی اور اخروی عذاب سے پناہ عطا فرما۔

 ہمارے پروردگار ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔

آپ دونوں راستوں کے اس سنگم میں مکمل با اختیار حالت میں کھڑے ہیں، اور آپ کے سامنے ایسی کوئی رکاوٹ نہیں ہے جو آپ کو دائیں جانب راستے پر چلنے سے روکے، نہ ہی بائیں جانب چلنے سے روکنے والی کوئی چیز ہے، آپ چاہیں تو دائیں جانب چلے جائیں اور چاہیں توں بائیں جانب چل نکلیں۔

کچھ لوگوں کے لئے یہ مسئلہ پیچیدہ بن جاتا ہے تو ابن عثیمین رحمہ اللہ نے اس کی کافی تفصیل بیان کی ہے کہ :

فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ پہلا خطبہ:

یہ کیا طریقہ ہوا کہ وہ گمراہی کے راستے پر خود چلتا ہے اور پھر کہہ دیتا ہے کہ اللہ تعالی نے گمراہی پر چلنا ہی میرے لیے لکھا ہوا تھا!

تو ایسی صورت میں مسلمان اپنا پہلا قدم ہی صحیح راستے اور سمت میں رکھتے ہوئے ایک لمحہ بھی عمل کے بغیر نہیں گزارتا یا اس لمحے میں ایسا کام کرتا ہے جو اللہ تعالی کی طرف لے جانے والا ہے، اور ساتھ ساتھ اللہ تعالی کے سامنے عاجزی، انکساری بھی اپناتا ہے، اور اس چیز کا بھر پور ادراک رکھتا ہے کہ اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہی آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں، اس لیے ہمیشہ اور دائمی طور پر اسی کے سامنے اپنی فقیری رکھتا ہے، ہمیشہ متمنی رہتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی توفیق اور اسی کی طرف سے ملنے والی صحیح سمت کا طلب گار ہے۔

حدیث: پانچوں نمازیں، ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک اپنے مابین سرزد ہونے والے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں، بشرطے کہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔

یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ ! یا ارحم الراحمین! دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں رحم کرنے والے!

وَعُلِّمْتُمْ مَا لَمْ تَعْلَمُوا أَنْتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ

تقدیر سے مراد ہے ایسی ناپسندیدہ چیز کا پیش آنا جس سے انسان ڈرتا ہے، لہٰذا حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ جب بندہ کو دعا کرنے کی توفیق ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے ایسی چیز کو دور کرتا ہے۔

حدیث: جو شخص get more info اپنے بھائی کی عزت کا (اس کی غیر موجودگی میں) دفاع کرے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے چہرے کو جہنم کی آگ سے دور کردے گا۔

فَقَالَ: لَوْ غَيْرُكَ قَالَهَا يَا أَبَا عُبَيْدَةَ، نَعَمْ نَفِرُّ مِنْ قَضَاءِ اللَّهِ إِلَى قَضَاءِ اللَّهِ، أَوْ أَرَادَ بِرَدِّ الْقَضَاءِ إِنْ كَانَ الْمُرَادُ حَقِيقَتَهُ تَهْوِينَهُ وَتَيْسِيرَ الْأَمْرِ، حَتَّى كَأَنَّهُ لَمْ يَنْزِلْ. يُؤَيِّدُهُ قَوْلُهُ فِي الْحَدِيثِ الْآتِي: «الدُّعَاءُ يَنْفَعُ مِمَّا نَزَلَ وَمِمَّا لَمْ يَنْزِلْ» ، وَقِيلَ: الدُّعَاءُ كَالتُّرْسِ، وَالْبَلَاءُ كَالسَّهْمِ، وَالْقَضَاءُ أَمْرٌ مُبْهَمٌ مُقَدَّرٌ فِي الْأَزَلِ۔۔۔۔۔۔وَالْحَاصِلُ أَنَّ الْقَضَاءَ الْمُعَلَّقَ يَتَغَيَّرُ، وَأَمَّا الْقَضَاءُ الْمُبْرَمُ فَلَا يُبَدَّلُ وَلَا يُغَيَّرُ.

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: “میں دعا کی قبولیت کیلیے پریشان نہیں ہوتا، بلکہ میں دعا مانگنے کی توفیق  ملنے  کی تمنا کرتا ہوں؛ کیونکہ جب مجھے دعا کی توفیق مل گئی تو قبولیت کی ضمانت اللہ تعالی نے دی ہوئی ہے”۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *